اس سے بڑھ کر حماقت کیا ہے کہ کسی چیز کو اللہ کا حکم محض اس بناء پر قرار دیا جائے کہ اس کے لیے کسی حدیث کی کتاب میں کوئی منظر نامہ موجود ہے یا یہ کہ امت تواتر کے نام پر اس منظرنامہ کو قائم رکھے ہوئے ہے، وغیرہ۔۔۔ خواہ اس کے لیے قرآن میں کوئی دلیل ہی نہ ہو۔
روزہ میں صبح سے شام تک بھوکا رہنے کا تصور بھی اسی قسم کی ایک مثال ہے۔
قرآن میں صرف یہ منظرنامہ ہے کہ جب تک سیاہ دھاری سفید دھاری سے علیحدہ نہ ہو جائے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلعم نے اس کا مطلب یہ لیا تھا کہ جب صبح ہو جائے۔ اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔
کیا اللہ تعالیٰ کو نعوذ باللہ بات کو بلاوجہ پیچیدہ بنانے کا شوق ہے؟ کیا قران میں یہ نہیں لکھا جا سکتا تھا کہ کھاؤ پیو حتیٰ کہ صبح ہو جائے؟ اگر ایسا نہیں لکھا گیا تو کیوں؟؟
اگر رسالت مآب صلعم نے اس سے صبح مراد لی ہے اور ہزار سال کے دوران جو علمی و تحقیقی ذخیرہ مرتب ہوا جسے تواتر کا نام دیا جاتا ہے، اس کے مطابق یہی مفہوم مستند ہے، تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اس سے آپ صلعم کی مراد قیامت تک کے لیے تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی مراد اس دور کے لیے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے ہزار سال کا ایک دن قرار دیا ہے، آخر یہ عقدہ کشائی قرآن سے باہر رہ کر کیسے ہو گی؟
کسی بھی حکم الہٰیہ کے ضمن میں ہزار سالہ دن کے پہلو کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ قرآن میں اس حکم کا مقصد سمجھا جائے اور پھر اس مقصد کے تناظر میں اپنے دور کے مطابق اس حکم کے طریق کار کا تعین اجتہاد کی بجائے اجماع امت کے اصول پر کیا جائے۔ صلوٰۃ زکوٰۃ حج اور دیگر احکام کے لیے روشنی ’’عرب تمدن و تواتر‘‘ نہیں بلکہ یہی رہنما اصول ہے ورنہ عربوں کے تمدن کی بنیاد پر بننے والے اولین طریق کار یعنی تواتر کے نتیجے میں آج نہ تو امت کی ذلت و نکبت دور ہو رہی ہے اور نہ ہی فرقہ واریت، اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔
قرآن کی سچی فکر رکھنے والوں کا بھی المیہ یہ ہے کہ روایات کے فساد کا پوسٹ مارٹم تو کافی و شافی ہو رہا ہے لیکن جب عمل تواتر کی دلیل پیش کی جاتی ہے تو اس کا صف شکن جواب نہیں آتا کہ یہ اصول کس طرح غلط ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ جن احادیث کی بنیاد پر یہ تواتر کی دلیل قائم کی گئی وہ احادیث من گھڑت ہیں اور یہ طریق کار ہی غلط ہے، تو سوال کیا جاتا ہے کہ پھر اس طریق کار پر عمل کرنے پر امت کو قرون اولیٰ میں پے در پے کامیابیاں کیوں ملیں؟
آیئے قرآن کی روشنی میں کامیابیوں اور صوم کا مفہوم اللہ کے ہزار سال کے دن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔
قرآن میں صوم کے ذکر کے فوراً بعد مقصد صوم کا تذکرہ ہے۔ ارشاد ہے لتکبرواللہ علیٰ ما ہداکم۔۔۔ یعنی تاکہ تم اللہ کی کبریائی قائم کرو جیسا تمہیں ہدایت کی گئی ہے۔ سیاق و سباق سے اور تقریباً تمام روایتی مفسرین کی آرا میں بھی یہی مفہوم درست بتایا گیا ہے کہ اللہ کی کبریائی قائم کرنے سے مراد اللہ کی صفات ربانی کی آئینہ دار فلاحی مملکت قائم کرنا ہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ صوم دراصل جہاد کی نفسیاتی تربیت ہے جبکہ اعتکاف ہے جہاد کی ڈیمانسٹریشن۔ گویا صوم سے مراد جہاد کے دوران خوردونوش کے ضمن میں جس قسم کے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے ان کی سالانہ ایکسرسائز امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
اب پہلے ہزار سالہ دن میں جنگ کا طریق کار یہ ہوتا رہا کہ فوجیں پو پھٹنے پر ایک دوسرے کے مقابل جمع ہونے لگتی تھیں اور سورج غروب ہونے پر جنگ اگلے روز تک کے لیے ملتوی ہو جاتی تھی۔ اس دوران سپاہ کو سارا دن بھوکے پیاسے لڑنا پڑتا تھا چنانچہ ایکسرسائز میں سارا دن بھوکا پیاسا رہنا ضروری تھا۔ یوں اگر رسول اللہ صلعم نے اپنے دور کی جہادی ضرورت کے مطابق سفید اور سیاہ دھاری سے مراد صبح لیا اور امت نے ہزار سالہ دن کے دوران اسی عمل کے تواتر سے جہاد میں کامیابیاں بھی حاصل کیں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن دوسرے ہزار سالہ دن میں جب جنگ کا طریق کار مورچوں کی لڑائی اور گوریلا جنگ پر مبنی ہونے لگا تو اسی ’’تواتر‘‘ پر عمل سے امت رو بہ زوال ہونے لگی۔
اس کا سیدھے سبھاؤ یہ مقصد ٹھہرتا ہے کہ طریق کار کے متعلق اگر کوئی احادیث قرآن سے متصادم نہ بھی ہوں تو بھی ان کا اطلاق قیامت تک کے لیے نہیں ہے اور دوسرے ہزار سالہ دن میں وہی طریق کار ناکامیوں کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ یہی اصول دیگر ارکان اسلام یعنی زکوٰۃ و صلوٰۃ و حج کے مفہوم کے لیے بھی اطلاق ہو گا۔ اسی میں اسباب زوال امت کے سوال کا جواب بھی پنہاں ہے اور اسی میں ان بدقسمتوں کی اس بات کا جواب بھی پنہاں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جس طریق کار پر چل کر قرون اولیٰ میں امت نے کامیابیوں کا سفر طے کیا تھا وہی طریق کار آج بھی کامیابی دے گا۔
دراصل کامیابیوں کا ضامن کوئی مستقل طریق کار نہیں ہوتا بلکہ اصول و مقاصد مستقل ہوتے ہیں اور وہ تمام کے تمام قرآن میں موجود ہیں لیکن طریق کار قرآن میں نہیں بیان کیا گیا کیونکہ یہ طریق کار ان مقاصد اور اصولوں کی روشنی میں امت نے اپنے ہزار سالہ دن کے تمدنی تناظر میں خود متعین کرنا ہوتا ہے۔ بعض روایات میں جو مجدد کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے تو اس میں بھی دراصل یہی مقصود ہے کہ وہ فرد یا ادارہ مجدد ہے جو اپنے ہزار سالہ تمدنی تناظر میں احکام قرآنی پر عمل درآمد کا طریق کار ان احکام کے قرآنی مقاصد کی روشنی میں پیش کرنے کے لیے امت کی سفارشات اکٹھی کر کے اجماع امت کے اصول پر متعین کرے۔
موجودہ ہزار سالہ دن کے تمدنی عسکری تناظر میں صوم یعنی روزے کے حکم پر عمل کرنے کے طریق کار کے بارے میں ایک امتی کی حیثیت سے میری سفارشات یہ ہیں۔
موجودہ دور میں قائم ہونے والی قرآنی مملکت میں پورے مہینے کے دوران مسلمان وہی غذا کھائے گا جو ایک فوجی جوان کو مورچے کے اندر پورا مہینہ رہنے کی صورت میں دستیاب کی جا سکتی ہے۔ اس کا صبح اور شام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ سفید اور سیاہ دھاری سے وہ مصنوعی دشمن افواج مراد ہو سکتی ہیں جو دنیا کی ہر منظم آرمی میں جنگ کی سالانہ ایکسرسائز کے لیے ایک دوسرے کے مقابل صف آرا کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی سالانہ بڑی فوجی مشقوں میں ان افواج کے لیے بلیو فورس اور غالباً ریڈ فورس کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ قرآن کی رو سے اس حربی ایکسرسائز کا دورانیہ ایک ماہ ہے جسے رمضان کا نام دیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مادہ ر م ض ہے جس کا لغوی مفہوم ہی گرمی ہے۔ اردو میں اس کے لیے سرگرمی کا لفظ قریب ترین ہے۔ الغرض جب تک اس ایکسرسائز کی سرگرمی جاری ہے، امت کا ہر فرد صوم کی پابندی کرے یعنی ان افواج کی سپاہ جیسی غذا استعمال کرے اور اگر ہو سکے تو اعتکاف کرے یعنی اس ایکسرسائز کا ان کے درمیان چھاؤنی میں اور محاذ جنگ پر رہ کر عملی مشاہدہ کرے۔
پھر دیکھیے کہ کیسے کامیابیاں امت کے قدم چومتی ہیں۔
مختصر یہ کہ یہ ایسی غذا ہو گی جو اگر تیار حالت میں پورے مہینے کے راشن کے طور پر اکٹھی فراہم کر دی جائے تو وہ پورا مہینہ ایکسپائر یعنی خراب نہ ہو۔ نہ ہی اسے چولہے پر گرم کرنے کی ضرورت ہو۔ اس نوع کی بیسیوں غذائیں موجود ہیں اور سینکڑوں قسمیں مزید تیار کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بسکٹ اور نمکو فیملی، پیک کی ہوئی بعض مٹھائیاں مثلاً سوہن حلوہ، حبشی حلوہ، کھجوریں، تمام ڈرائی فروٹ، گڑ شکر، ٹیٹرا پیک اور ٹن پیک غذائیں وغیرہ، غرض ایسی سینکڑوں قسم کی مزید غذائیں بالخصوص ٹن پیک اور آکسیجن سے مبرا پیکنگ میں ایسی لذیذ غذائیں تیار اور محفوظ کرنا عین ممکن ہے جن کو قابل تناول حالت میں ایک مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کے لیے سٹور رکھا جا سکتا ہے۔
پھر دیکھیے کہ کیسے کامیابیاں امت کے قدم چومتی ہیں۔
مختصر یہ کہ یہ ایسی غذا ہو گی جو اگر تیار حالت میں پورے مہینے کے راشن کے طور پر اکٹھی فراہم کر دی جائے تو وہ پورا مہینہ ایکسپائر یعنی خراب نہ ہو۔ نہ ہی اسے چولہے پر گرم کرنے کی ضرورت ہو۔ اس نوع کی بیسیوں غذائیں موجود ہیں اور سینکڑوں قسمیں مزید تیار کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بسکٹ اور نمکو فیملی، پیک کی ہوئی بعض مٹھائیاں مثلاً سوہن حلوہ، حبشی حلوہ، کھجوریں، تمام ڈرائی فروٹ، گڑ شکر، ٹیٹرا پیک اور ٹن پیک غذائیں وغیرہ، غرض ایسی سینکڑوں قسم کی مزید غذائیں بالخصوص ٹن پیک اور آکسیجن سے مبرا پیکنگ میں ایسی لذیذ غذائیں تیار اور محفوظ کرنا عین ممکن ہے جن کو قابل تناول حالت میں ایک مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کے لیے سٹور رکھا جا سکتا ہے۔
یہی مثال دیگر احکام کی بھی ہے۔ قرآنی مملکت میں رمضان کی نفسیاتی اور مشاہداتی تربیت جہاد کے بعد یکم شوال کا یعنی اس روز کا خطبہ جسے عید الفطر کا نام دیا گیا ہے، اللہ کی راہ میں لڑنے کیلئے نکلنے کے مطالبے پر مشتمل ہو گا۔ اس مطالبے پر لبیک کہنے والوں کی 2 ماہ تک عسکری تربیت ہو گی جس میں اسلحہ کے استعمال کی تربیت بھی شامل ہے۔ پھر حج کا کنونشن ان مجاہدین کی اپنے اپنے مشن کی تشکیل کے لیے روانگی کا وقت ہے۔ صلوٰۃ اس تمام عمل کا محاسبہ کرنے اور اسے تحفظ دینے کا نام ہے جو پوری امت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری امت اپنی اپنی مساجد میں اجتماعات صلوٰۃ کے ذریعے انجام دے گی۔ آج ہماری مساجد میں جو نماز ہو رہی ہے یہ صلوٰۃ نہیں محض اس کا حلف ہے۔ صلوٰۃ تو اس حلف کا سلام پھیرنے کے بعد شروع ہوتی تھی۔ آج کی اسلامی مملکت میں بھی یہ حلف ہر اجتماع صلوٰۃ سے پہلے اٹھایا جائے گا جس کے موجودہ ہزاریئے کا طریق کار امت اسی اجتماع صلوٰۃ میں طے کرے گی۔ بالفاظ دیگر ہر اجتماع صلوٰہ وہ کردار بھی ادا کرے گا جو پارلیمنٹ ادا کرتی ہے۔ اس کی تفصیل سمجھنے کے لیے اسلامی مملکت کا منشور تجویز کیا گیا ہے اس صفحہ پر جانے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔
احکام قرآنی کے مفہوم کو متعین کرنے کا یہ تصور چونکہ ملا کی دکانداری کے لیے زہر قاتل ہے کہ اس کی دکانداری اس علمی ذخیرے پر منحصر ہے جو پہلے ہزار سالہ دن کے لیے مقرر تھا، اس لیے وہ اس حقیقت کی شدید مخالفت کرے گا باوجودیکہ وہ اس دلیل کو یوں پہچانے گا جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔
سب کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
احکام قرآنی کے مفہوم کو متعین کرنے کا یہ تصور چونکہ ملا کی دکانداری کے لیے زہر قاتل ہے کہ اس کی دکانداری اس علمی ذخیرے پر منحصر ہے جو پہلے ہزار سالہ دن کے لیے مقرر تھا، اس لیے وہ اس حقیقت کی شدید مخالفت کرے گا باوجودیکہ وہ اس دلیل کو یوں پہچانے گا جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔
سب کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
Kusoori sahab mujhy ap se ittefaq ha laken hamara to 1000 saal ka dor nahi guzar raha hai, abi to ham dunya se 1000 saal pechy hain. hamary yahan to abi b wohi dor hai jo 300 hijri me tha.
ReplyDeleteاس قدر توجہ سے مطالعہ کرنے پر آپ کا مشکور ہوں اور تاخیر پر شرمندہ ہوں۔
ReplyDeleteآپ کی بات کی تائید اور اس میں تھوڑا سا اضافہ کر رہا ہوں کہ ہم دنیا سے دراصل ہزار سال پیچھے ہیں نہیں بلکہ پہنچائے گئے ہیں۔ جب اقوام ترقی کرتی ہیں تو وہ آگے نکل جاتی ہیں اور جب وہ رک جاتی ہیں تو دوسرے آگے نکل جاتے ہیں۔اسی کو زوال کہتے ہیں۔ ہمیں دراصل اس تواتر کے اصول نے ترقی سے روک رکھا ہے یعنی روز افزوں زوال میں دھکیل رکھا ہے